چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے جیئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زُلفِ جاناں کی سنوارے جائیں گے گیسوِ ئے دوراں ہم نہیں ہوں گے اگر ماضی منوّر تھا کبھی تو ہم نہ تھےحاضر جو مُستقبل کبھی ہو گا درخشاں ہم نہیں ہوں گے ہمارے دَور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں جنوں کی مُشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوعِ مہر کا جلوہ سحر ہو جائے گی شامِ غریباں ہم نہیں ہوں گے |
نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہوگانظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہوگا حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہوگا نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے میں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آسان مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو خزاں سرشتِ بہار آگئی تو کیا ہوگا یہ فکر کر کے اس آسودگی کے ڈھوک میں تیری خودی کو بھی موت آگئی تو کیا ہوگا |
ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں
ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں
دِیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں امانتِ سحر و شام چھوڑ آیا ہوں کہیں چراغ، کہیں جام چھوڑ آیا ہوں کبھی نصیب ہو فرصت تو اُس کو پڑھ لینا وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں ہوائے دشت و بیاباں بھی مجھ پہ برہم ہے میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ آیا ہوں کوئی چراغ سرِ راہگزر نہیں، نہ سہی میں نقشِ پا تو بہرگام چھوڑ آیا ہوں ابھی تو اور بہت اُس پہ تبصرے ہونگے میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں |
تیری آنکھیں تيری زلفیں تیرا شانہ دیکھوں
تیری آنکھیں تيری زلفیں تیرا شانہ دیکھو
بارھا خواب میں منظر یہ سہانہ دیکھوں لوگ سارے تو تیرے شہر کے دیوانے ھیں میری خواھش ھے کہ میں تیرا زمانہ دیکھوں ریت پہنی ھوی مکے کی گزرگاھوں پر نیچی نظروں سے تیرا غار میں جانا ریکھوں تیرے کمبل سے تیرے جسم کی خوشبو سونگھوں تجھ پہ اترا تھا جو حکمت کا خزانہ دیکھوں تیرے ہاتھوں نے کئ دن کی کڑی دھوپ کے بعد۔ ۔ ۔ |